Orhan

Add To collaction

اک ان چاہا رشتہ

اک ان چاہا رشتہ از سحر نور قسط نمبر2

'''تکلیف دیتے ہیں تو بھول جاتے ہیں تکلیف سہتے ہیں تو یاد رہتا''' گھر پہنچنے کے بعد ابھی وہ تھوڑا سستانے کیلئے لیٹی ہی تھی کہ زویا آگئی۔ کیسا ہوا پیپر۔۔ جی سہی ہوگیا۔۔ زری نے دھیمے لہجے میں جواب دیا۔ سہی ہوا یا صرف گزارا ہوا۔۔ زویا تو آج جیسے پکا ٹھان کر آئی تھی بےعزتی کرنے کیلئے۔ زری کیسا ہوا پیپر۔ ۔۔ اب امی کی آوازیں بھی آنے لگ گئیں۔ ٹھیک ہوا کہہ تو دیا۔۔ امی۔۔ییییییی۔۔ مجھے پتہ کیسا ہوا اسکا پیپر۔۔ سارا ٹائم موبائل لے کر بیٹھی رہی ہے۔ پتہ نہیں ایسی کونسی پڑھائی ہے جو موبائل سے ہوتی ہے۔ زویا فل موڈ میں تھی۔ زری اب رودینے کو تھی ایک تو پیپر پہلے ہی مشکل تھا اوپرسے زویا کا اسطرح سے پیش آنا۔ امی ٹھیک ہوا پیپر میرا۔۔ اسے کہیں پلیز ابھی چلی جائے یہاں سے۔۔ اچھا کھانا کھا کر سونا۔۔ بھوکا نہیں سونا۔۔ میں روٹی بنا رہی ہوں۔۔ امی کی فکرمند سی آواز آئی۔ اچھا ٹھیک ہے۔ زری نے اپنا منہ کمبل میں دے دیا کیونکہ وی مزید زویا کو برداشت نہیں کرسکتی تھی۔ دماغ تھا کہ سکون ہی نہیں لے رہا تھا مسلسل بھاگ رہا تھا۔ 🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁 میٹرک اے پلس میں کرنے والی زری کا خواب تھا کہ وہ میڈیکل میں جاۓ گی اور میڈیکل کر کے آرمی میں ڈاکٹر بننے گی۔ چھوٹے چھوٹے خواب تھے نا ٹوٹ جائیں تو کسی کو کیا فرق پڑتا۔ جب یہ بات اس نے گھر میں کی تو سب سے پہلے زویا کی مخالفت۔۔ اسکا اتنا دماغ ہی نہیں ہے میڈیکل کرے۔۔ پاپا ایسے فیس بھی دو اور کوئی رزلٹ بھی نہیں۔۔ کوئی ضرورت نہیں ہے میڈیکل کرانے کی۔۔ نارمل سے سبجیکٹس رکھوائیں اسے کالج میں، ایڈمیشن بھی کم فیس میں ہوجائے گا۔ لو جی یہاں تو کام ہی ختم ہوگیا۔ زری کو تو جیسے چپ ہی لگ گئی۔ کیوں کہ اسے یاد تھا زویا نے ضد کرکے انجینئرنگ میں داخلہ لیا تھا۔ کیوں کہ وہ اپنا کیریئر میتھس میں بنانا چاہتی تھی۔ اچھی خاصی فیس گئی تھی اور جارہی تھی اسکے بی۔ایس۔سی میتھس کی شکل میں۔ کامرس میں اسکا پرائیویٹ کالج میں بلکل فری داخلہ ہوگیا۔ جب اسکا ایڈمیشن ہوا تو زری کے کزن تایا کے بیٹے نے کہا۔۔ اوے۔۔۔ یہ کس میں داخلہ لے لیا۔۔ یہ سبجیکٹس تو کھوتے پڑھتے ہیں۔ یعنی ٹھیک ٹھاک قسم کا مزاق بن گیا۔ انٹر کا دو سال وہ عرصہ پَر لگا کر گزر گیا۔۔ زری نے بہت بے دلی سے پڑھائی کی۔۔ جب انٹرسٹ ہی نہیں تھا وہ کیسے پڑھتی۔ 12 ستمبر کو رزلٹ تھا اسکافائنل۔ رزلٹ سے تین چار دن پہلے پاپا نے اس سے پوچھا۔ ہاں زری۔۔۔ کیا امید ہے رزلٹ کی؟ پاپا۔۔ معلوم نہی۔۔ بس اتنا معلوم ہے کہ 900 مارکس مجھے شیور ہیں اوپر کے بونس ہونگے۔۔ ہی ہی۔ زری نے ہستے ہوے کہا۔۔ اچھا چلو اللّه‎‎ بہتر کرے۔ وحید صاحب نے اسکے سر پہ ہاتھ پھیرتے دعا دی۔ 11ستمبر شام مغرب کے بعد اچانک سے فون آیا۔ زویا نے لپک کر اٹھایا۔ زری کدھر ہے؟ وحید صاحب نے جلدی سے پوچھا۔ کیوں پاپا۔ کیا ہوا۔ ۔۔ زری کو دو فون فوراً۔ ۔
زری نے فون پکڑا۔۔ اسلام علیکم پاپا۔۔ جی کہیں کیا ہوا۔ زری کافی ڈری ہوئی تھی کہ معلوم نہیں اب کیا ہوگیا۔ اوےےے کڑیئے۔۔۔۔ ٹاپ کرگئ ہے۔ ۔۔ وحید صاحب کی جوش میں لپٹی آواز آئی۔۔ ابھی فون آیا مجھے بورڈ سے کہا ہے کہ صبح اپنی بیٹی کو لے کر بورڈ ائیں ایوارڈ سرمنی کیلئے۔ زری کے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے زبان کنگ ہوگئی۔ اسے کچھ لمحے سمجھ ہی نہیں آیا کہ ہوا کیا ہے۔
سٹیج پر گولڈ میڈل لیتی زری کی آنکھیں جھلملاگئ۔ پاپا کا سر فخر سے بلند تھا وہ سب کو فون کر کر کے بتا رہے تھے کہ میری بیٹی نے بورڈ ٹاپ کیا۔ اگلے دن اخبار بھرے پڑے تھے وحید صاحب شاپ پہ بیٹھے سب کو دکھا رہے تھے۔ زری کیلئے ہر کالج سے فون آیا کہ ادھر داخلہ دلوائیں ہم سب اخراجات اٹھائیں گے بس آپ بچی کو بھیج دیں۔ وحید صاحب نے کہا میری بیٹی بہت چھوٹی ہے میں اسے کہیں نہیں بھیج سکتا۔۔ لڑکا ہوتا تو اور بات تھی۔ زری کا دوبارہ کامرس میں بیچلرز کیلیے اسی کالج میں پھر سے بنا کسی فیس اور خرچ کے داخلہ کروا دیا گیا جدھر سے اس نے انٹر کیا تھا۔بی کام میں ایک بار پھر سے زری نے کالج میں پوزیشن حاصل کی۔ بینرز پر اسکی پوزیشن ہولڈر کی تصاویر اسکے والدین کی دعاؤں کا پھل تھا۔
پر زری کیا چاہتی تھی۔۔ یہ کوئی نہیں سننا چاہتا تھا۔۔ سبکو اب لگتا تھا یہ پوزیشن حاصل کرنے والی مشین ہے۔ روبوٹ ہے۔ وہ تھک گئی تھی اس پوزیشن کے پیچھے بھاگ بھاگ کر۔ وہ بھی نارمل لائف گزارنا چاہتی تھی۔ یونیورسٹی میں داخلہ بھی زویا کو پسند نہیں آیا۔ بقول اسکے اسکی ابھی عمر نہیں یونیورسٹی جائے۔ شاید اسلئے کہ وہ خود ایک پرائیویٹ کالج میں ماسٹرز ان میتھس کی کلاسز لینا چاہتی تھی۔۔ وہ چاہتی تھی ایک بار پھر سے اسکا داخلہ فری ہوجائے اور اسکی فیس سے بچے پیسوں سے اسکا ماسٹر ہوجائے۔ لیکن اس بار اسکی نہیں چلی زری کو ایم۔بی۔اے میں داخلہ مل گیا۔ اور اس نے کوشش کر کے میرٹ بیس سکالرشپ بھی حاصل کرلیا اس طرح اسکو پاپا سے فیس مانگنے اور زویا کی جلی کٹی سننے سے آزادی مل گئی۔
لیکن پوزیشن۔۔۔۔ اوہ۔۔ہ۔۔ہ خدا۔۔ میں کیا کروں۔ یہ زویا تو مجھے اپنے طنز سے ہی مار دے گی۔ زری۔۔ی۔ی۔ی۔۔۔ آکر کھانا کھا لو۔۔ امی کی آواز پھر سے آئ۔ جی اچھا۔۔ وہ بے دلی سے بیڈ سے اٹھ کر کچن میں چلی گئی۔ 🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁 زری مکمل نام زرش نور عام سے نقوش کی حامل لڑکی درمیانہ قد اور گندمی رنگت۔ہممم۔۔۔۔۔۔ کیا خاص ہے یار اس لڑکی میں جو اسے اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ وہ مسلسل اسے ٹکٹکی باندھے دیکھ رها تھا۔ وہ مسلسل سر جھکاے شائد لیپ ٹاپ پے کچھ ٹائپ کر رہی تھی اسکا ازلی دشمن۔ اوہ۔۔۔۔ یار کبھی کبھی میرا دل کرتا میں یہ لیپ ٹاپ ہی توڑ دوں جو ہر ٹائم یہ لڑکی اسی میں گھسی ہوتی۔ یا تو لیپ ٹاپ یا تو موبائل پتہ نہیں اسکی کوئی دوست نہیں ہے۔ وہ عجیب قسم کی جلن میں مبتلا ہورہا تھا۔ اوئے۔ ۔ اچانک سے اسدنے اسکی محویت کو توڑا۔ تو فر سے یہاں بیٹھا اس بیچاری کو گھور رہا۔ اسدنے بینچ پے اسکے ساتھ بیٹھتے کہا۔ سر آج پوچھ رہے تھے تیرا کیوں کلاس چھوڑی ہے۔ پھر؟؟۔
پھر کیا میں کہا سر وہ باہر بیٹھا ایک معصوم کی کی جان لے رہا آنکھوں سے۔ اسد نے دانت کیچکچاتے کہا۔
شٹ اپ! بکواس نہ کر۔ اوہ۔ اسکے دماغ میں جیسے جھمکا سا ہوا۔۔معصوم ۔۔۔ ہاں بلکل۔۔ اسکی معصومیت ہی تو اسکی اصل توجہ ہے۔ یار تھینک یو۔۔ اس نے اسد کو گلے لگا لیا۔
اوے۔۔ چل ہٹ پرے پتہ نی کیا کیا سوچ کے گلے لگا رہا۔ زین کا بےاختیار قہقهہ نکلا۔ یار ایک بات سمجھ نہیں آتی مجھے۔ اسد نے زین کو ایک بار پھر سے جھنجوڑ کے مخاطب کیا۔
ہاں بول۔۔۔ بول نہیں بلکہ بکواس۔۔ یار میں سیریس ہوں۔
تو میں کب نہیں ہوں۔ زین نے حیرانگی سے اسے دیکھا۔ اس لڑکی میں کیا خاص ہے؟ جو تو اتنا پاگل ہوا پھر رہا۔ مجھے تو کچھ خاص نی دکھتا نہ زیادہ پیاری ہے نہ بولتی ہے نہ کسی سے کوئی لینا نہ دینا ۔۔ اس سے کئی گنا پیاری لڑکیاں ہیں ڈیپارٹمنٹ میں انکو دیکھ لے کم از کم وہ لفٹ تو کرایں گی ہی ۔۔زین اسد کی بات پے ھلکے سے مسکرایا۔ تو نہیں سمجھے گا۔ ۔ چھوڑ ۔۔ اور رہی ڈیپارٹمنٹ کی لڑکیاں تو مجھے ان میں ایک فیصد دلچسپی نہیں۔ چل اٹھ کلاس کا ٹائم ہوگیا۔ زین نے چیزیں سمیٹتے کہا۔
کلاس نہیں جناب سہی سے کہیں نہ آپ کی وہ چلی گئی ہیں۔ ۔۔ ہاہاہاہا۔۔۔ چل جو بھی ہے اب اٹھ۔ زین نے اسد کو ایک ٹھوکا لگایا۔ دونوں ہںستے ہوے ڈیپارٹمنٹ کی جانب چل دیے۔ 🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁 زین الابدین کا تعلق ایک بھت ہی سلجھے ہُوے گھرانے سے ہے۔ تین بھائیوں اور دو بہنوں کے بعد آخری نمبر پے ہونے کی وجہ سے کافی لاڈلا بھی اسی لیے سب گھر والے اسکی ہر بات کو حکم کا درجہ دیتے ادر منہ سے نکالا ادر سب حاضر۔ اس کے دو بڑے بھائی عمران اور سلمان اپنے بزنس میں سیٹ ہیں۔ جبکہ ایک بھائی کامران ڈاکٹر کی سیٹ سمبھا لے ہوے ہے اب ایک گھر میں اتنے بزنس والے ہوں تو ایک ڈاکٹر بھی بنتا ہے۔ بہنوں کی شادیاں ہوگی ہیں ایک ہی خالہ کے گھر ان کے دو بیٹوں کے ساتھ جبکہ دو بڑے بھائی بھی شادی شدہ ۔۔ کافی خشحآل فیملی ہے۔ مسز اینڈ مسٹر زمان اب گھر میں ریٹائرمنٹ کی لائف گزر رہے ہیں۔ جب اولاد اپنے پاؤں پے کھڑی ہو جاے تو والدین ریٹائر ہی ہوجاتے ہیں۔
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁

   0
0 Comments